ہم معاشرے میں مختلف لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں اس کا دارومدار نہ صرف ہماری ذہانت اور معاشی حالت پر ہوتا ہے بلکہ معاشرے کے مزاج کے مطابق ہم کس طرح اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں یہ چیز بھی رویوں کے بننے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انسان کی زندگی خواہشات‘ امیدوں اور ذمہ داریوں سے عبارت ہے۔ اپنی ابتدائی زندگی میں وہ صرف اپنے لئے خواہشات اور امید رکھتا ہے لیکن بعد میں بہت جلد اسے احساس ہوجاتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتا ہے جہاں اسے صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی بہت کچھ کرنا ہے تب اس کی خواہشات اور امیدوں میں کچھ ذمہ داریاں بھی شامل ہوجاتی ہیں جن میں سے اپنی شخصیت کو قابل قدر اور قابل قبول بنانا بھی ایک اہم ضرورت کا درجہ رکھتی ہے تاہم ایسا کرتے ہوئے جہاں چند نادانستہ اور فطری ذہنی عوامل شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں وہاں خود انسان بھی لوگوں میں اپنا مقام بنانے کیلئے اپنی ذات کو تبدیل کرنے لگتا ہے یہ ایک ایسا حساس مرحلہ ہوتا ہے کہ اکثر اوقات انسان اپنی ترجیحات اور پسندو ناپسند کو بھی یکسر فراموش کر بیٹھاتا ہے وہ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے جیتا ہے ذیل میں ان تمام عوامل کو زیر بحث لایا گیا ہے جو آپ کی شخصیت کو بنانے اور بگاڑنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے کون سے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ اندرونی احساسات کو چھپانا: جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں ناخوشگوار سچائیوں‘ تلخ حقیقتوں اور المیہ واقعات کے خود پر اثرات کو چھپانا سیکھتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کمال ہوشیاری سے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات و سکنات کے ذریعے اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر نہ کرنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ ہماری شخصیت کا یہ بناوٹی نقاب کئی لحاظ سے ہمارے لئے فائدہ مند بھی ثابت ہوتا ہے۔ ذرا تصور تو کیجئے کہ اگر ہمارا چہرہ کسی آئینے کی طرح ہمارے اندرونی احساسات و خیالات کی عکاسی کرنے لگ جائے تو زندگی کیسی ہوجائے گی؟ ہم میں سے اکثر تو ابتدائی مہینوں میں ہی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور ازدواجی زندگی بہت جلد ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوکر رہ جائے گی۔ ہمارے نہ کوئی دوست ہوں گے اور نہ کوئی رشتہ دار کیونکہ اپنے چہرے سے جھلکنے والے’’سچے تاثرات‘‘ کے جرم میں ہم سب کو اپنا دشمن بناچکے ہوں گے لہٰذا آپ اس بات پر پریشان مت ہوں کہ آپ کی شخصیت میں منافقت یا دوغلے پن کا عنصر کیوں موجود ہے یا آپ تضاد سے سمجھوتہ کررہے ہیں۔ آپ اسے مصلحت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ایک ایسی مصلحت جو سماجی تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ معاشرتی دبائو سے مزاج کو ہم آہنگ بنائیں: ہم معاشرے میں مختلف لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں اس کا دارومدار نہ صرف ہماری ذہانت اور معاشی حالت پر ہوتا ہے بلکہ معاشرے کے مزاج کے مطابق ہم کس طرح اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں یہ چیز بھی رویوں کے بننے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی پسند و ناپسند کے مطابق اپنی شخصیت بنائیں‘ اس سے قطع نظر خود ہمارے کیا احساسات ہیں اور ہمیں فطرتاً کیا بات اچھی لگتی ہے اور کیا بری وہ مسلسل ہم سے اپنے تقاضے منوانے پر تلے رہتے ہیں جو شخص اپنے اپ کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ اپنی زندگی کو کامیاب و کامران بنادیتا ہے اور جس نے ان سے بغاوت کی اس نے گویا خود کو لوگوں کی نظر میں برا بنا دیا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ مکمل طور پر اپنی شخصیت کو فراموش کردیں اور اسے دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑدیں۔ کوئی بھی کام کرنے سے قبل آپ اپنے جذبات و احساسات کو بھی ضرور مدنظر رکھیں۔
تلخ باتوں کو بھول جائیں: ہمارے دماغ میں بھولنے کی بڑی صلاحیت پائی جاتی ہے‘ ذرا سوچیے! اگر ہم ماضی کی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی یاد کرنے لگے جائیں تو زندگی کس قدر تکلیف دہ ہوجائے گی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: اگر آپ اپنے تعلقات کو خوشگوار اور طویل بنانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کی یادداشت محدود ہو‘‘۔ دماغ کی یہ حیرت انگیز فراموشی ہمارے لئے ایک نعمت سے کسی طرح بھی کم نہیں ہوتی۔ اسی کی بدولت ہم ماضی کی ان تمام تلخ اور تکلیف دہ یادوں سے محفوظ رتے ہیں جو یاد رکھے جانے پر ساری زندگی شدید ذہنی اذیت کا باعث بنی رہتی ہیں۔ فراموشی کی یہ عادت ایک اور افادیت رکھتی ہے‘ اکثر اوقات جب لوگ کسی بہت ہی خوفناک واقعہ سے دوچار ہوتے ہیں (مثلاً ایکسیڈنٹ‘ قتل یا کوئی اور قدرتی سانحہ) تو ان کا دماغ اس کے اثرات سے بچنے کیلئے اسے یادداشت کی ایک دھند میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے نتیجتاً دماغ پر ایک خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اس خود کار دفاعی عمل کی وجہ سے جسمانی اعصاب پر برے اثرات نہیں پڑتے۔ جن لوگوں میں تلخ اور دوسروں کی ناپسندیدہ باتوں کی فراموش کرنے کی عادت نہیں ہوتی وہ زیادہ تر پریشان کن زندگی سے دو چار رہتے ہیں اور لوگوں سے ان کا رویہ بھی تلخ رہتا ہے ان کے سماجی تعلقات زیادہ تر ناخوشگواریت کا شکار رہتے ہیں لہٰذا آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ جو باتیں آپ کیلئے تکلیف کا باعث بنی ہیں انہیں جہاں تک ممکن ہو ذہن کے گوشوں سے نکال دیا جائے۔ لوگوں کے جذبات کی قدر کیجئے: آپ کا لوگوں کے ساتھ جذباتی رویہ کیسا ہوتا ہے؟ یہ چیز خود کو معاشرے میں ہر دلعزیز بنانے کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے بہت سے افراد ذہانت اور قابلیت کے لحاظ سے کافی پختہ شخصیت کے مالک ہوتے ہیں لیکن وہ لوگوں کے جذبات کی ٹھیک طرح قدر نہیں کرپاتے انہیں صرف اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ لوگ ان کی اصل ذات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہی چیز انہیں معاشرتی طور پر نقصان میں رکھتی ہے جبکہ اکثر لوگ ذہنی طور پر اتنے قابل نہیں ہوتے لیکن چونکہ وہ دوسروں کے جذبات کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور انہیں ہمیشہ خوش رکھنے میں کوشاں رہتے ہیں لہٰذا وہ کئی لحاظ سے قابل اور سمجھدار افراد سے بھی زیادہ ذہین نظر آتے ہیں۔ مثلاً وہ کئی ایسے حالات سے بآسانی خود کو بچالیتے ہیں جہاں میچور اور خود دار افراد دوسروں کے سامنے اپنی شخصیت کو غلط یا پسندیدہ بنادیتے ہیں۔ آپ بے جا اور نام نہاد انا پسندی کا شکار نہ ہوں آپ کے کسی عمل سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئے آپ جس قدر دوسروں کا خیال رکھیں گے ان کا رویہ بھی آپ سے ویسا ہی ہوگا۔ چاپلوسی روش سے گریز کیجئے: ہمارے معاشرے میں دولت اور ظاہری خوبصورتی کی بنیاد پر ہی انسان کو اہمیت دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے میں بہت’’اوور‘‘ ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی شخصیت مکمل طور پر تصنع اور بناوٹ کا نمونہ بن کر رہ جاتی ہے۔ ان کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ۔ ان کے لئے ’’اداکاری‘‘ ایک حقیقت یا ایک کارآمد حربہ ہوتی ہے‘ جس کے ذریعے وہ ہر ایک کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ زندگی ان کیلئے ایک طویل شو کی مانند ہوتی ہے اور ان کے تمام الفاظ محض ڈائیلاگ کا درجہ رکھتے ہیں‘ وہ حقیقت سے دور چلے جاتے ہیں‘ انہیں خود اپنی شخصیت پر یقین نہیں ہوتا کہ وہ کیسی ہے اور ان کی ’’حقیقی قدرو قیمت‘‘ کیا ہے؟ یہ کیفیت ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں انسان کی’’انا‘‘ اندر ہی اندر گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ اکثر فلمسٹار اس کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم میں سے بھی ہر ایک شخص اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی اس بری کیفیت سے ضرور دوچار ہوتا ہے اور اگر کوئی(باقی
شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کبھی اس مرض میں مبتلا نہیں تو یا تو یہ اس کی غلط بیانی ہوگی یا پھر اس کی زندگی کبھی ارتقاء کے ادوار سے نہیں گزری اور اس نے ابھی وہ دن نہیں دیکھے جو ایک انسان کو زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہیں۔ بہرحال اب یہ انسان کے اوپر ہے کہ خود کو بناوٹ کے اس جال سے نکالنے کی کس قدر صلاحیت رکھتا ہے‘ یہ حوصلہ مندانہ قدم جتنی جلد اٹھایا جائے گا ایک متوازن اور اچھا انسان بننے کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ متعدل رویہ اختیار کیجئے: یہ بات یاد رکھیں کہ مکمل طور پر ذاتی خواہش کا اسیر ہوکر یا سو فیصد دوسروں کی خواہشات کے تابع رہ کر آپ کامیاب زندگی نہیں گزارسکتے اور نہ آپ ایک بہترین شخصیت کے حامل ہوسکتے ہیں۔ آپ کو ان دونوں رویوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ہے اس لئے آپ کو اعتدال کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا‘ ہمیں امید ہے کہ یہ چند رہنما اصول اپنا کر آپ کافی حد تک ایک متوازن‘ پرسکون اور مطمئن زندگی گزارسکیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں